part 2“ جنگل کا جادو اور میں “

کھرچ کھرچ ، میرے قدموں کی آواز
کھرچ کھرچ، یہ میرے پیچھے چلتے کسی کے قدموں کی آواز تھی۔۔

میرا اُٹھایا ہوا قدم ابھی ہوا میں ہی معلق ہوتا تو پیچھے کسی کا قدم برف میں رکھنے کی آواز آتی۔۔۔

کھڑچ۔۔۔

کچھ لحمے پہلے ٹریک کرتے اپنے قدموں کی اس آواز سے میرے ذہن سے ٹینشن کھرچا جارہا تھا۔ ابھی یہی آواز “ کھرچ “ ذہن پر ہتھوڑے کی طرح پڑنے لگی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
میں نے پیچھے مڑے بغیر قدم تیز کردیے۔ اور وہ آواز بھی تیز تر ہوتی گئی۔۔
کھُڑچ کھڑچ کھڑچ کھڑچ

میں ایک دم رک گئی۔

میرے ایک ہاتھ میں ہائکنگ اسٹک اورٹارچ تھی۔ دوسرے ہاتھ میں سیفٹی گئیر پر گرفت مضبوط کرتے پیچھے ٹرن ہوئی ۔ دیکھا تو کچھ بھی نہیں۔۔۔
دور تک ٹارچ کی روشنی گھمائی۔ آس پاس دیکھا کچھ بھی نہیں سوا برف پر قدموں کے نشانات کے۔۔
سوچا میرا وہم ہے۔ سہیلی کو تسلی دی کچھ نہیں، ڈرو نہیں مسا، یہ جنگل کی پراسراریت میں وہم کی طاقت زور پکڑ گئی تھی۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔
سوکھا سانس بحال کیا، پانی کا ایک گھونٹ پیا۔ اور اللہ سائیں کا شکر کرتے ہوئے دوبارہ چلنا شروع کیا، دو چار منٹ بعد وہی آواز شروع ہوگئی۔۔
کھڑچ۔۔۔
اب میں سمجھ گئی تھی یہ کوئی اورمخلوق ہے۔۔۔ رات کا وقت تھا ، اندھیرا جنگل تھا تو یہ سب تو ہونا تھا۔۔۔
اب میں نے زور زور سے آیت الکرسی پڑھنا شروع کی۔۔۔ مجھے جن بھوت سے ڈر نہیں لگتا۔لیکن اس خوفناک رات میں میری حالت خراب ہورہی تھی۔ ہاں میں ڈر گئی تھی۔۔۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

«اللّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَهٌ وَ لاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَ لاَ یُحِیطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمَاوَاتِ وَ الأَرْضَ وَ لاَ یَۆُودُهُ حِفْظُهُمَا وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ.

آیت الکرسی پڑھتی میں آگے آگے چل رہی تھی اور آیت الکرسی پڑھنے کے بعد کہتی کہ تم جو بھی ہو تمہیں حضرت سلیمان (ع) کا واسطہ ہے۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ مجھے میرے راستے جانے دو۔۔ میرا پیچھا چھوڑ دو۔۔۔
ہر مرتبہ آیت الکرسی پڑھتے میں یہ لائنز دھراتی جاتی۔۔۔ جب گیارہ مرتبہ پڑھ چکی تو آواز ختم ہوچکی۔۔
میں جان گئی تھی کہ میرا فارمولا کام کر گیا ہے ۔ اب کوئی چیز میرے پیچھے نہیں۔۔۔

بس چاہتی تھی کہ راستہ ختم ہو، پھر سہیلی سے کہتی کہ یار یہ بنگلہ کہاں رہ گیا ہے۔ کہتی بس تھوڑا آگے اور چلو آجائے گا، میں اپنے آپ سے باتیں کرتی ٹریک کر رہی تھی ۔ مجھے کیا وڈیو رکاڑد کرنی تھی اندھیرے میں ، میں خوفزدہ تھی۔۔۔
دل دل میں دعا کرتی کہ بس یہ بنگلہ آجائے اب۔۔۔
یہ ایسا راستہ تھا جہاں ایک موڑ ختم ہوتا تو دوسرا آجاتا۔ کہیں راستہ بہت چوڑا آتا کہیں بہت کم ہوجاتا۔ باریک پگڈنڈی کی طرح پر وہ بھی برفوں میں ۔۔ چلتے چلتے ایک میدان آیا۔۔ یہ ایک کھلا میدان تھا۔۔
ایک راستہ سیدھے ہاتھ پر جاتا اور ایک الٹے پر ، وقت دیکھا تو گھڑی میں سات بج رہے تھے۔ مجھے سمجھ نہ آئے کہ میں کیا کروں۔ کس طرف جاؤں۔ 
فون میں نیٹورک موجود تھا۔۔ میں نے اپنے اُسی دوست کو کال ملائی جس سے یہاں ٹریک کے حوالے سے معلومات لیتی رہی تھی۔

مسا: اسلام علیکم 
دوست: وعلیکم اسلام، کیسی ہو ؟ 
مسا: سب باتوں کو چھوڑیں۔ میں میرن اور دگڑی فوریسٹ کی بیچ پھنسی ہوں اور مجھے راستے کی سمجھ نہیں آرہی کہ کس طرف جاؤں ۔۔
دوست:کیا پاگل لڑکی ہو!!! ۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم جہاں ہو وہ کیسی جگہ ہے؟؟
میں: یہ ایک میدان ہے۔ میرے آس پاس گھنے درخت ہیں لیکن یہ ایک میدان ہے ، سامنے کوئی گاؤں ہے جہاں بہت روشنیاں نظر آرہی ہیں ۔ میرے دائیں ہاتھ پر بھی ایک راستہ ہے اور بائیں پر بھی، میں کس طرف جاؤں۔۔۔؟
دوست: دیکھو مسا پینک مت ہو۔ تم یہیں کیمپ لگا لو، جنگل میں اس وقت اگر دگڑی کے باہر سے بھی گزر جاؤ گی تو بھی تمہیں پتہ نہیں لگے گا، کیونکہ اندھیرا ہے ۔ مجھے لگتا ہے تم ٹھیک ٹریک پر نہیں ہو، تم گاؤں کے قریب ہو۔۔۔ 
تم یہیں کیمپ لگاؤ اور پھر مجھ سے بات کرو۔۔۔ 
مسا: اوکے بائے۔

فون رکھتے میں نے جلدی جلدی اپنا خیمہ سیٹ کیا، اُس کے اوپر دوسری شیٹ لگائی۔ آس پاس سے پتھر لے آئی وہ چار کونوں پر رکھے۔ تاکہ ہوا سے کیمپ اُڑ نہ جائے۔ اس جگہ کافی زیادہ ہوا بھی تھی۔۔
میں فوراً ٹینٹ کے اندر گئی۔ اسٹو جلایا، نوڈلز بنائے ، کھائے۔ اللہ سائیں کا شکر کیا ۔۔۔ پھر سوچا کہ جس جگہ ہوں یہ جنگل ہے ۔ یہاں آگ جلانا ضروری ہے۔۔ کیمپ کی زپ کھولی ، باہر نکلی اور دنگ رہ گئی۔۔۔
کیا نظارہ تھا۔۔۔ یا اللہ سائیں۔۔۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ لگتا تھا مسا کسی اور جگہ پہنچ گئی ہے۔۔۔ ہارٹ بیٹ تیز ہوئی تو میں نظارہ دیکھتے فریزڈ ہوئی۔۔۔ میرے اوپر ایک ایسا آسمان تھا جس پر اتنے زیادہ ستارے تھے کہ میں نے اپنے زندگی میں اتنے ستارے کبھی نہ دیکھے تھے۔۔۔ مریخ جو کہ لال رنگ کا ستارہ ہے ، میں بچپن سے اسی تکتی بڑی ہوئی ہوں، یہ ستارہ مجھے شدید پسند ہے۔ اُس کے علاوہ ستاروں سے ایک تکون بنا ہوا تھا۔ ایک جگہ ایک دائرہ بھی بنا ہوا تھا، ۔۔ایک ستارہ بہت زیادہ روشن تھا۔۔۔ یکدم میری نظر پڑی تو ایک ستارہ ٹوٹ کر گرا۔ میں نے فوراً اللہ سائیں سے اپنے دل کی دعا مانگ لی۔۔۔ 
سامنے نظر کی تو ٹم ٹماتی ستاروں کی ایک اور وادی تھی۔ یہ ستارے کبھی زیادہ روشن ہوتے کبھی مدہم ہوجاتے۔۔۔ یہ لوگوں کی گھر تھے جن میں لائیٹس روشن تھی۔ میرے سر پر ایک آسمان تھا اورایک آسمان میرے قدموں میں بھی تھا۔ میں ایک ایسی جگہ تھی جہاں میرے قدموں میں زمین نہیں بلکہ آسمان تھا۔۔۔ میں کسی اورستارے پر تھی۔ اور بس میں یہاں کی اکیلی باسی تھی۔ میں بہت خوش تھی۔ مجھے کوئی خوف کوئی ڈر نہیں تھا۔ یہ منظر بس میرے لیے تخلیق کیا گیا تھا جس کو میں جی رہی تھی۔ میں زندہ تھی ۔ میں سانس لے رہی تھی۔ میں آزاد تھی۔۔۔میرے ساتھ اگر کوئی ذات تھی تو وہ بس وہی تھی جو کبھی کسی کو نہیں چھوڑتی ۔۔ساری دنیا دھتکار دے پھر بھی وہ گلے لگاتا ہے۔ اُس کی لاکھ مرتبہ نافرمانی کردو پھر بھی ایک بار معافی مانگو تو گلے لگاتا ہے۔ وہ سہارا دیتا ہے۔ وہ سنبھال لیتا ہے۔ آج اس جنگل میں اس نے مجھے صرف سنبھالا ہی نہیں ، صرف سہارا ہی نہیں دیا بلکہ مجھے ایسا منظر دکھایا تھا کہ جس کو بیان کرنے کے لیے نہ ہی مجھ میں ہمت ہے اور نہ میرے قلم میں۔ بس ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک خواب تھا۔۔۔
فوراً سے پاس سے کچھ سوکھی لکڑیاں جمع کی۔ ایک قسم کا گھاس تھا جو سخت سوکھا تھا پہلے اُس کو رکھا اور آگ جلائی ، آگ جیسے ہی بھڑک گئی تو اوپر چھوٹی چھوٹی باریک لکڑیاں رکھی پھر اُس کے اوپر بڑی بڑی لکڑیاں۔ اور یوں ایک زبردست قسم کی آگ لگ گئی جو مجھے گرم کر رہی تھی اور اب میں مطمئن تھی کہ اب یہاں کوئی جانور نہیں آئے گا۔۔
میں آسمان کو دیکھتی اور اپنے معلم مسافر شب ( محمد احسن ) کو یاد کرتی۔ اس بات کا میں اقرار کرتی ہوں کہ میں معلم سے شدید محبت کرتی ہوں۔۔میرے سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسی محبت ہے۔۔ ایک باپ کے لیے جو بیٹی کی محبت ہوتی ہے ، یا ایک بہن کے لیے بھائی کی، یا ایک ماں کو اپنے بچے سے جو محبت ہوتی ہے، یا پھر ایک شاگرد کو جو محبت اپنے استاد سے ہوتی ہے۔۔میں اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی۔ اور نہ ہی اس کو کمپئیر کرنا چاھتی ہوں۔ بس اتنا پتہ ہے اس میں لالچ نہیں، کوئی دھکاوا یا کوئی مقصد ، مطلب نہیں۔۔۔ یہ ایک پاک و پاکیزہ محبت ہے۔ ایک روحانی کنیکشن ہے جو مجھے محسوس ہوتا ہے۔۔۔ 
میں سوچ رہی تھی کہ کاش مجھے بھی ستاروں کا علم ہوتا،ا ، کاش میں نے بھی معلم کی طرح علم فلکیات پڑھا ہوتا تو اَن کہکشاؤں کی دنیا کو اچھی طرح جان سکتی۔۔ اور دن جس قدر روشن ہوتا ہے، رات اُس کے مقابلے میں بہت زیادہ خوبصورت اور پُراسرار ہوتی ہے۔ یہ کھینچتی ہے اپنی طرف، رات میں ایک سحر ہے جو آپ کو بُری طرح قید کرتا ہے۔۔ شاید معلم بھی اس ہی وجہ سے مسافر شب ہیں کہ وہ رات کے سحر میں قید ہوکر یہ بیش بہا خزانہ حاصل کر چکے ہیں، جو مجھے ابھی دکھائے دے رہا ہے۔ جو وجدان کے سمندر میں غرق ہوکر رات کے سحر کا اسیر ہو وہ کیسے نہ مسافر شب ہو۔۔

آگ کے پاس بیٹھی میں جانے کیا کچھ سوچ رہی تھی کہ آج جب ٹریک شروع کیا تو سوچا تھا کہ آج رات دگڑی بنگلہ پر کیمپ لگاؤں گی ، 
لیکن میں ایک ایسی جگہ ہوں جہاں کا مجھے کچھ پتہ نہیں۔ بس اتنا علم ہے کہ جنگل میں ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دوست نے دگڑی بنگلہ کے حوالے سے اپنا ایک تجربہ شئیر کیا تھا۔ جو سنتے مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس پُر اسرار جگہ پر لازمی جانا ہے۔ مجھے اِن جنگلوں میں لازمی مست ہونا ہے۔۔۔

وہ کہتا ہے کہ ہم ایک گروپ کے ساتھ دگڑی بنگلہ گئے، یہ گرمیوں کی بات ہے ، ہر طرف سرسبز گہرا جنگل تھا۔۔ وہاں جاتے خیمے لگائے گئے۔ بون فائیر کر کے کھا پی کر ہر کوئی اپنے ٹینٹ میں آرام کرنے چلا گیا، یکدم اُن کو ایک خوبصورت وائلن کی آواز سنائی دی۔ یہ اس قدر خوبصورت آواز تھی کہ یہ لوگ اس آواز سے محذوذ ہوتے رہے اور سوچتے رہے کہ شاید گروپ میں کوئی لڑکا وائلن لایا ہوگا۔۔ اور سوگئے۔ صبح جب اُٹھے تو گروپ لیڈر نے سب سے پوچھا کہ وائلن کون لایا ہے اپنے ساتھ ؟؟؟ اور سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے کیوںکہ اُن میں سے کسی کے پاس بھی وائلن نہیں تھا۔۔ اور اِن لوگوں کو کنفرم ہوا کہ یہ کوئی اور ہی مخلوق تھی۔۔
یہ بات سنتے میں بس اُس وائلن اور اُس کے پُر اسرارساز کو سوچتی رہی ۔ سوچتی تھی کہ میں جاؤں گی تو شاید میرے لیے بھی وہ وائلن بجے، اورشاید وائلن بجانے والا میرے سامنے آئے اور اپنی کہانی سنائے۔۔ شاید یہ انگریزوں کے وقت کی کوئی محبت کی کہانی ہو جو مجھے سننے کو مل جائے۔۔۔
سوچا کل صبح ہوتے، صحیح راستہ ڈھونڈتے دگڑی پہنچوں گی اور کل کی رات وہیں کیمپ کروں گی۔۔۔
پھر مجھے اپنا وہ خواب یاد آیا جس کی وجہ سے میں نے اپنا دگڑی بنگلہ جانے کا پروگرام پہلی بار کینسل کردیا تھا۔اور اب یہ دوسری بار تھا جب بھی میں وہاں نہیں پہنچ سکی تھی۔۔۔
پھر کچھ وقت بعد سوچا کہ اس خواب والے ڈر پر قابو پانا ہے اور میں لازمی جاؤں گی۔۔۔ اور میں گئی ، اب اس آگ کے پاس بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ میرا یہ پلان کامیاب نہ ہوسکا۔۔
پھر یکدم خیال آیا کہ یہ سب اللہ سائیں کی طرف سے ہے کہ اُس نے مجھے رات میں راستہ بھٹکایا ہے ۔ میرے لیے وہاں کیمپ کرنا بہتر نہ تھا۔۔۔

“ ہر دُکھ ، ہر درد، ہر مصیبت آزمائش ضرور ہوتی ہے ، لیکن اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا اللہ سائیں ، اپنے بندوں کے ساتھ جو بھی معاملہ کرتا ہے وہ اُس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔۔۔”

میں نے اپنا فون پاور بینک سے کنیکٹ کیا ہوا تھا ، اور وہ خیمے میں رکھا تھا۔ میں وہ لے آئی ۔ اوردیکھا تو وہ کنیکٹڈ ہے پر چارج نہیں ہورہا اورسخت قسم کا فریزڈ ہورہا تھا۔ میں نے فون کو کچھ دیر آگ کے پاس رکھا۔ وہ گرم ہوا پھر چارج بھی ہونا شروع ہوا۔۔۔ 
میرے سامنے جو نظارے تھے میں اُن کی فوٹوگرافی نہ کرسکی، کیونکہ میرے پاس کوئی قیمتی بڑے ڈس لار کیمرے نہیں۔ میرے پاس میرا ایک عدد فون ہے جو میرے ٹرپس پر میرا کیمرہ بھی بنتا ہے اور ٹرائے پوڈ کے ساتھ اٹیچ ہوکر کیمرہ مین بھی۔۔۔
فون میں کسی وقت سنگلز آتے کسی وقت جاتے۔ ماں جان کو میسج کیا کہ میں نے ٹینٹ لگا لیا ہے اور محفوظ ہوں۔ پریشان نہ ہوں۔۔
دوست کو میسج کیا کہ میں سوچ رہی ہوں کل صبح گاؤں کی طرف نکل جاؤں اور وہیں سے واپسی کا راستہ ڈھونڈھو۔۔۔ ایڈوائیز می۔۔۔
یہ میسج کرتے یہی سوچا کہ جب نیٹورک ہوگا تو یہ میسج مل ہی جائیں گے۔

میرے سامنے آگ خوب روشن تھی۔ جو مجھے گرمائش دے رہی تھی۔ 
اور میں تو کسی اور ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔۔ستاروں بھری سحر انگیز رات کے وجد میں کھو کر اپنے وجدان کی آگ روشن کرلی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر ستارے کا ایک الگ ہی عالم ہے۔ میں بھی اس کیفیاتی ماحول میں، ستاروں کی کہکشاؤں میں اک ستارہ بن گئی۔ اپنی روشنی کو جان کر ایک نیا عالم ڈسکور کر لیا۔۔۔
میں خوش تھی کہ رب سائیں نے مجھ عاجز بندی کو اتنا نواز دیا ۔۔۔
اب نہ خوف ہے نہ ڈر ہے۔
نہ جن ہے نہ بھوت ہے۔
صرف ایک مسا مست الست ہے اور وہ ہے۔۔۔

“ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ “

اس حسین رات کے حسن میں کھو کر وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔
وقت دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے ۔ سوچا تھوڑا آرام کر لوں۔ صبح پھر راستہ تلاش کرنا تھا۔ پتہ نہیں جنگل کے کس کونے میں ہوں۔۔
آگ پر نظر گئی تو دیکھا وہ بھی اب اپنے آخری جلوے دکھا رہی ہے۔ 
سوچا ہوا اور تیز ہوگئی تو اس کی چنگاریاں اُڑ کر جنگل میں آگ نہ لگا دیں۔
بس پھر اُس آگ کو بھجا کر اپنے خیمے میں چلی گئی۔ سلیپنگ بیگ میں لیٹی ۔ اپنے آپ کو زپ سے بند کر کے سونے کی کوشش کی۔نیند بہت دور تھی۔ سردی اس قدر زیادہ تھی کہ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ یہ منفی درجا حرارت ہے۔۔۔ 
رات کے کس وقت نیند آئی علم نہیں۔۔۔

صبح جب آنکھ کُھلی تو ایک روشن دن تھا۔ دوست کا میسج تھا کہ گاؤں کی طرف مت جانا۔ لوگوں کا کوئی علم نہیں کہ کیسے لوگ ہیں۔ تم میرن کے ٹریک سے واپس آؤ۔۔۔ اور یہ دگڑی بنگلہ کے کورڈینیٹس ہیں، اپنا جی پی ایس آن کر کے چیک کرو۔۔۔ 
میں ٹھیک ٹریک پر تھی۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ میں بنگلے سے پندرہ منٹ کی دوری پر تھی۔۔۔میں ایک عام لڑکی ہوں جس کو اپنی دُھن میں مست ہوکر نیچر کو انجوائے کرنا اچھا لگتا ہے۔ جس کو لگتا ہے کہ اُس کے ساتھ ٹریک پر ہر پتہ ، ہر پتھر، ہر درخت ، بلکہ ٹریک پر موجود ہر ایک شے بات کرتی ہے، پیغام دیتی ہے۔۔

صبح اُٹھ کر میرا پلان دگڑی بنگلہ کو ڈھونڈنے کا تھا ، 
لیکن رات جو کچھ ہوا، مطلب راستہ بھٹک جانا ، بیچ جنگل میں کیمپ کرنا ، اور چھپا خزانہ حاصل کرنا۔ ارے ارے کیا لکھ رہی ہوں !
کہیں ڈاکو بھائی پیچھے نہ پڑ جائیں۔ “ ڈاکو بھائی غلط نہ سمجھنا، 
میں کوئی کسی بادشاہ کے زمینی خزانے کی بات نہیں کررہی جو دفن کیا جاتا تھا۔ ہیرے ، جواہر، یا سونے کی اشرفیاں وغیرہ “
یہ ایک روحانی خزانہ ہے۔ اس کے لیے بڑی تگ دو کرنی پڑتی ہے۔ بڑی ازیت سہنی پڑتی ہے ۔ روح کے زخموں کی کھدائی کے بعد کہیں گہرائی میں جاکر یہ خزانہ نصیب ہوتا ہے۔۔ یہ خزانہ حاصل کر کے میں اتنی سیراب ہوچکی تھی کہ اب فلحال اوور ڈوز ہوچکا تھا۔۔
میں خیمے سے باہر نکلی تو میرے سامنے اس سال کا آخری سورج روشن تھا۔رات جہاں ایک ستاروں کی وادی تھی ابھی وہاں مختلف پہاڑ نظر آتے تھے۔۔۔۔

میں اپنے ساتھ جو انڈے لائی تھی اُس میں سے تین ٹوٹ چکے تھے اور تین ثابت تھے۔ وہ میں نے اُبالنے رکھ دییے۔ سامان پیک کرنا شروع کیا۔۔ بوائل ایگ کھایا ، کافی بنائی وہ پی۔ باقی سامان پیک کیا ۔ اُس جگہ اپنا جو بھی کچرا کیا تھا وہ سب بھی ساتھ بیگ میں ڈالا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کوئی شخص نہیں رُکا۔۔۔

واپسی کا ٹریک شروع کیا۔ میں آرام آرام سے چل رہی تھی۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا میرے آگےکچھ وقت میں وہ چڑھائی آئے گی جو آتے وقت اترائی تھی۔۔۔ 
پکچرز اور وڈیوز بناتی ٹریک کر رہی تھی۔کل رات کے اندھیرے میں جو ٹریک کیا وہ آج صبح میں زیادہ پیارا لگ رہا تھا۔ جنگلی کوے کی آوازیں بھی سنائی دیتی اور میں کہیں کہیں رُک کر ریسٹ کرتی اور نیچر کو انجوائے کرتی ۔۔۔

بار بار دماغ میں یہی خیال آتا کہ میں دگڑی بنگلہ نہیں پہنچ سکی۔ میں کسی اورطرف نکل گئی اور مجھے وہ راستہ بھی سمجھ نہیں آیا۔۔۔ لیکن پھر دل کہتا کہ کوئی بھی سفر ناکام نہیں ہوتا۔ اللہ کی طرف سے بہتری یہی تھی جو کچھ جیسے ہوا وہ سب اُس نے ویسے پلان کیا تھا۔ میرے قدم وہاں لکھے ہی نہیں ہوئے تھے اور پتہ نہیں کب لکھے ہونگے اور اکیلے یا کسی کے ساتھ۔۔۔

“ کوئی سفر ناکام نہیں ہوتا، منزل نہ بھی ملے تو راستے بہت کچھ سکھا دیتے ہیں۔۔”

ہاں اِن راستوں نے مجھے بہت سارے نئے سبق پڑھائے۔ رب سائیں نے مجھے کائنات کے وہ رنگ دکھائے جس کی جستجو مجھے ہمیشہ سے ہے اوررہے گی۔۔ اُس نے مجھے احساس دلایا کہ وہی ہے جو مجھے سنبھالے ہوئے ہے۔۔
اِن ہی خیالوں میں ٹریک کر رہی تھی کہ سامنے سے ایک دوست کو آتے دیکھا۔ یہ مسٹر پگ تھا، میں پہلے تو ڈر گئی لیکن پھر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اُس نے مجھے نہیں دیکھا۔ وہ بھاگتا ہوا نیچے گیا۔ اور پھر دیکھا کہ وہ اکیلا نہیں اُس کے ساتھ بیوی بچے بلکہ پوری فیملی تھی۔۔۔

میں نے کوشش کی کہ تصویر بنا لوں، بس پھر جیسے تیسے بنائی ۔۔بیچ بیچ راستے میں کہیں رُک کر ڈرائے فروٹس کھاتی پھر بیگ اُٹھا کر اپنا سفر جاری رکھتی۔۔

اب وہ وقت بھی آگیا کہ میرے پاس پانی ختم ہوچکا تھا، میں نے وہیں سے برف اُٹھائی اُس میں چینی مکس کر کے کھائی۔ اُس وقت تو اینرجی لیول بڑھ گیا تھا، لیکن واپس آتے گلے میں شدید درد شروع ہوگیا جو اب تک اپنا اثر دکھا رہا ہے۔۔

اب میرے سامنے وہ چڑھائی تھی جو آتے ہوئی اُترائی تھی۔ اس جگہ مجھے کافی مشکل پیش آئی۔ میں تھک چکی تھی اور سامان کے ساتھ اوپر چڑھنا مجھے بہت مشکل لگ رہا تھا۔۔۔ جیسے تیسے رکتے ، سانس بھال کرتے میں آخر اُس جگہ پہنچ گئی جہاں میرانجانی اور دگڑی کا ٹریک الگ ہوتا ہے۔۔

اس وقت شام کے چار بچ رہے تھے۔ ٹریک پر کوئی نہیں تھا۔ میں وہیں بیگ اُتار کر تھوڑی دیر لیٹ گئی۔ مجھے اتنی شدید نیند آرہی تھی کہ دل کر رہا تھا یہیں سوجاؤں۔۔۔لیکن مجھے نیچے کا ٹریک مکمل کرنا تھا۔ اوراُمید یہی تھی کہ شام سے پہلے پہنچ جاؤں گی اور نیچے سڑک سے کوئی لفٹ مل جائے گی۔۔۔

میں نے پھر ہمت کی ، سامان اُٹھایا۔ اور نیچے کا ٹریک شروع کیا۔ کہیں کہیں ٹریک پر برف جم کر شیشہ بن چکی تھی اور اُس پر پاؤں رکھنے سے میں کافی مرتبہ پھسل کر گری ، گر تو گئی اُس کے بعد سامان کے ساتھ دوبارہ واپس اُٹھنا ایک الگ مسئلہ تھا۔ میرے جوتے اُس جگہ گرپ کرتے تو میں اُٹھتی ۔ تو پہلے سامان کا بیگ اپنے آپ سے جدا کر کے خود اُٹھتی پھر رک سک اُٹھاتی۔۔۔

کرتے کرتے میں جھیل کے پاس جب پہنچی اُس وقت سورج غروب ہونے لگا تھا۔۔ وہ اس قدر خوبصورت لگ رہا تھا کہ میں وہیں رُک کر اُس کی تصاویر بنائی۔ یہ 2018 کا آخری سورج تھا۔ کل ایک نیا دن نیا سال ہوگا۔ مجھے بہت خوشی ہورہی تھی کہ میں نے یہ وقت ٹریکنگ کرتے گزارا۔ کہتے ہیں آپ ائیر اینڈ اور نئے سال کی شروعات پر جو کچھ کرتے ہیں یا جس کے ساتھ ہوتے ہیں ، نئے سال میں وہی کرتے رہتے ہیں۔۔۔

اب ٹریک پر اندھیرا ہو رہا تھا۔ میں پھر لیٹ ہوگئی تھی۔ میں کسی ایک منٹ کے لیے بھی ٹریک پر نہیں رُکی بس جلدی جلدی نئچے اُتر رہی تھی۔ میں ٹھیک 6 بجے میرانجانی کے اسٹارٹنگ ٹریک پر پہنچ چکی تھی۔ اگر وقت کا حساب لگایا جائے تو صحیح پہنچی تھی۔ وہاں فوریسٹ آفس میں ایک لائیٹ جل رہی تھی اور باہر دو موٹر سائیکل کھڑے تھے۔ سوچا یہ دروازہ کھٹکھٹاتی ہوں ، جوکوئی نکلے گا اُسے کہوں گی کہ مجھے اوپر مارکیٹ تک چھوڑ آئے۔۔۔ دروازے پر دستک دی گئی پر کوئی باہر نہیں آیا، مجبوراً مجھے پیدل اس سڑک پر چلنا پڑا۔۔۔
میں شدید تھک چکی تھی، اب میری بس ہوچکی تھی۔ لیکن میرے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا، میں اس سڑک پر اپنی ٹارچ آن کر کے چل رہی تھی۔ یکدم مجھے احساس ہوا کہ اس اندھیرے میں تو میں خود ٹارچ جلا کر عوام کو سگنلز دے رہی ہوں کہ دیکھو میں اکیلی جارہی ہوں۔ بس پھر ٹارچ بند کی ، اور نظریں نیچیں کیے چل رہی تھی۔ یہ سڑک ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی۔ میں اب وہیں نیچے سڑک پر بیٹھ گئی۔ اب جو آسمان کی طرف دیکھا تو ایسا منظر تھا کہ لگتا تھا کہ میں کسی ہالیوڈ فلم میں موجود ہوں، یا کسی اور ملک میں آگئی ہوں ۔ میرے چاروں طرف پائن کے درخت تھے اور اوپر آسمان تھا وہ بھی ستاروں بھرا۔۔ میں اُس لحمے کو کیپچر نہیں کرسکی۔۔۔ میں چلتی چلتی چرچ کے پاس پہنچی وہیں ایک جگہ ایک بلب ٹمٹما رہا تھا۔ وہاں ایک بندہ کھڑا تھا مجھے دور سے آتا دیکھ کر کہا کہ آپ کو روم چاھئیے۔ میں نے کہا نہیں مجھے ٹیکسی چاھئیے جو مجھے مارکیٹ پہنچا دے۔۔ کہتا ہے باجی گھر والی بات ہے ، پندرہ سو میں کمرہ لے لیں ، گرم پانی بھی اور کھانا بھی لا دیں گے۔ میں جس قدر تھک چکی تھی تو یہ مجھے ایک نعمت کی طرح لگ رہا تھا۔۔
بس پھر کمرہ چیک کیا۔ وہ ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔ میں وہیں گئی اپنا سامان رکھا ، کل کے لیے گاڑی والے سے بات کی۔ کچھ اور ضروری فون کالز کر کے سوگئی ۔۔۔۔

صبح اُٹھ کر اپنا واپسی کا سفر شروع کیا۔۔ میں نے پھر واپسی کے لیے بھی رومر کی سروس استعمال کی ۔ میں راستے میں لوگوں کو کھڑے دیکھتی کہ وہ تھوڑی سی برف سے خوش ہوکر سیلفیاں بنا رہے تھے اور میں اپنے ٹریک کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ میں کتنی زیادہ برف اورٹھنڈ سے واپس آئی ہوں۔۔۔
واقعی تجربہ انسان کو بہت کچھ سیکھاتا ہے ۔۔۔
میں نے توبہ کر لی کہ اب کبھی کسی جنگل میں اکیلی نہیں جاؤں گی۔ جب تک کہ مجھے راستے کا علم نہ ہو۔۔۔پہاڑوں کی بات پھر بھی اورہوتی ہے ، آپ یہاں وہاں سے راستہ نکال لیتے ہیں لیکن جنگل میں راستہ بھٹک جانا ایک عذاب بن جاتا ہے۔۔۔
پھر بھی اِن گمشدہ راستوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے ۔۔۔
مست الست مسا

۔۔۔ختم شد ۔۔۔

Leave a comment